ہندوستان کا مسلم سماج جن امراض کا شکار ہے ان میں سب سے نمایاں اور شدید مرض غیر اسلامی رسوم و رواج کا غلبہ ہے ۔ یہ رسوم و رواج اس حد تک مسلم سماج میں نفوذ پا چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کا لازم حصہ بن گئے ہیں ۔ ان رسوم و رواج نے جہاں اسلام کی سادگی اور ضروری امور میں ممکنہ آسانی کو ختم کردیا ہے وہیں اسراف و فضول خرچی کا راستہ دکھا کر کئی خاندانوں کو سودی قرض کی لعنت میں مبتلا کردیا ہے ۔ ان رسوم و رواج میں زیادہ شدید وہ ہیں جو ایک مسلم مرد اور ایک مسلم عورت کے درمیان نکاح کے رشتہ سے وابستہ ہوگئے ہیں ۔ لڑکی والوں سے رقم کا مطالبہ ، اس پر اصرار اور اس کو نکاح کا لازمی جز سمجھنا ، یہ تمام غیر اسلامی باتیں اس طرح رواج پا چکی ہیں کہ ہر خاندان ، لڑکی اور لڑکی والوں کی دینی حالت و کیفیت ، ان کے اخلاق و اطوار ان کے طور طریق وغیرہ کو نظر انداز کر کے ، اپنے لڑکے کا رشتہ اس لڑکی سے کرنے کے لیے کوشاں رہنا ہے جس کے خاندان والے زیادہ سے زیادہ رقم دے سکیں ۔ یہ دکن کے علاقہ میں گھوڑے جوڑے اور شمال میں تلک وغیرہ کے نام سے موسوم ہے اور اگر علیم خان فلکی صاحب نے اس کو نیلام یا آکشن سے تعبیر کر کے اس کو مرد کا بِکنا قرار دیا ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے کیوں کہ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی والوں سے پیسہ لیے بغیر رشتہ نکاح پاتا ہو ۔
نکاح ، مرد و عورت کے فطری جنسی جذبات کی تسکین کا جائز طریقہ ہی نہیں بلکہ عبادت بھی ہے۔ اگر اسلام کے مزاج کو دیکھا جائے تو یہ محسوس ہوگا کہ یہ دین نہیں چاہتا کہ کوئی عورت بے شوہر اور کوئی مرد بے بیوی رہے ۔ اس لیے بیواؤں کی شادی کی ہمت افزائی کی گئی ۔ اسلام نے اپنے اسی مزاج کی برقراری کے لیے نکاح کو بہت آسان اور سادہ بنایا ۔نہ خرچ و اسراف نہ پیچیدہ رسومات ۔ لیکن مسلمانوں نے جس کو اسلام نے آسان بنایا تھا غیر اسلامی رسوم اور خرافات کے ذریعہ اس کو مشکل بنادیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں میں دورِ جاہلیت کے عربوں جیسا طرزِ فکر آگیا ہے ۔ دور جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش پر تشویش میں مبتلا اس لیے ہوتے تھے کہ کسی کو اپنا داماد بنانا معیوب جانتے ہیں اور اتنا معیوب سمجھتے تھے کہ بعض اپنی ننھی پیاری بیٹی کو زندہ دفن کردینے کی غیر انسانی حرکت سے تک چوکتے نہ تھے اور آج لڑکی کی پیدائش ، ماں اور باپ دونوں کے لیے فکر اور تشویش کی بات اس لیے بن جاتی ہے کہ جب یہ بڑی ہوگی ، جوان ہوگی تو اس کی شادی کے لیے کیسے گھوڑے جوڑے کی رقم کا اور لڑکے والوں کے مطالبہ کو پورا کرنے کا انتظام ہوگا ۔ کہاں سے جہیز کی سبیل ہوگی ۔ گھوڑے جوڑے اور جہیز کی اس لعنت کا نتیجہ ہے کہ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جوانی کی عمر سے ان بیاہی آگے نکل رہی ہے کیوں کہ ان کے والدین یا سرپرست نہ گھوڑے جوڑے کی رقم فراہم کرسکتے ہیں اور نہ جہیز میں وہ سب دے سکتے ہیں جن کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ یہ صورت حال بڑی تشویشناک ہے اس سے کئی سماجی برائیاں جنم لے سکتی ہیں اور جنسی بے راہ روی کو سماج میں راہ مل سکتی ہے یہ خطرناک صورتحال محض گھوڑے جوڑے اور جہیز کے مطالبات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے ۔
بحوالہ:
مسلم سماج کا ایک رِستہ ناسور ۔ جوڑا جہیز
فیس بک پوسٹ: 30/ستمبر/2011
0 comments:
Post a Comment