جو اصحاب حیدرآباد سے ناواقف ہیں ان کی اطلاع کے کیے عرض کر دوں کہ گنڈی پیٹ ایک وسیع و عریض تالاب کا مقامی نام ہے جس کا پانی سارے شہر کو پینے کے لیے سربراہ کیا جاتا تھا۔ سرکاری طور پر اگرچہ اسے عثمان ساگر کا نام دیا گیا ہے لیکن عوام اسے گنڈی پیٹ ہی کہتے ہیں جو دراصل اس دیہات کا نام تھا جہاں یہ تالاب بنایا گیا۔ اب تو اس تالاب کی ہڈیاں نکل آئی ہیں ، اس کا حسن مدھم پڑ چکا ہے لیکن آج بھی لوگ جوق در جوق تفریح کے لیے وہاں جانا نہیں بھولتے۔ اور کہا جاتا ہے کہ جو ایک بار گنڈی پیٹ کا پانی پی لے وہ حیدرآباد کو کبھی بھلا نہیں پاتا۔
حیدرآباد میں ہر دور میں طرح طرح کے پھول کھلتے رہے اور دنیا بھر میں اپنی خوشبو بکھیرتے رہے۔ یہ اور بات ہے کہ حیدر آبادی مزاج میں پی آر شپ ، اپنے آپ کو بڑھ چڑھ کر منوانے کی خصوصیت اور دوسروں کو گرانے کا رویہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے افسانوی انکسار کے سبب حیدرآباد کے ادیب، شاعر، فن کار اور عالم پردۂ گمنامی میں میں رہے۔ کسی نے نام لے لیا تو لے لیا ، خود سے آگے بڑھ کر حیدر آبادی فن کاروں نے خود کو کبھی نہیں منوایا۔
***
اقتباس از مضمون "علی باقر" (مضمون نگار : پروفیسر رحمت یوسف زئی)۔
فیس بک پوسٹ: 15/جنوری/2012
0 comments:
Post a Comment